اشاعتیں

لوگوں کا کام ہے کہنا

تصویر
 ہم لوگ اپنی زندگی کے اچھے برے معملات زندگی شروع کرنے سے پہلے ہی ان کو لوگوں کی سوچ کے سپرد کر دیتے ہیں ۔۔ لوگ کیا کہیں گے۔۔؟؟ بیٹی اگر کچھ زیادہ پڑھنا چاہیے تو یہ ہی سوال بیٹا اگر جلدی شادی نا کرنا چاہے تو وہ یہ سوال ۔۔ کیسا لباس پہن  کر باہر جانا ہے کس لباس میں کوئی پارٹی اٹینڈ کرنی ہے ۔۔ کس بریڈ کے شوز لینے ہیں ۔۔ عید کی شاپنگ کیسے کرنی ہے ۔۔ اور کہاں سے کرنی ہے۔۔ فلاں گھروالوں نے پیچھلے سال کیا کہا تھا ۔۔۔ ان ساری باتوں کے باوجود پھر بھی ساری بشریت ایک دوسرے کو سوچنے کی دعوت دیتی ہے بیٹی تھوڑی سی صحت مند ہوجائے تو کہنے لگتے ہیں بیٹا موٹی۔ہورہی ہو اپنی صحت کا خیال کرو۔  بھائی کچھ تو سوچیں، یہ کیا حال بنا رکھا ہے۔ اتنا جلدی بڑھاپا ؟؟ اتنی شوگر؟ کچھ تو سوچیں۔ لگتا ہے سوچے بغیر کام نہیں چلے گا۔ اور اس ڈائیلاگ سے کبھی جان نہیں چھوٹے گی۔اور دوسری طرف سوچنا تو پڑے گا کیونکہ کہ سوچنے کا حکم تو خالق نے بھی دیا ہے۔ افلا تعقلون؟ افلا تتدبرون؟ کیوں نہیں سوچتے، کیوں فکر نہیں کرتے؟ دین اسلام نے سوچنے اور فکر کرنے کو عبادت کہا ہے بلکہ سوچنے اور فکر کرنے کی اہمیت  اتنی زیادہ ہے کہ خود رب کریم نے ف

محبت رسول محمــﷺــد

تصویر
یا رب محمــﷺــد محبت سے ایسا کچھ ہو میری ہر صبح اور شام کا کچھ حصہ اس طرح سے۔ دھڑکے جو دل میری یاد میں۔ کیسی دن کی صبح پھر دیدار مصطفی ﷺ سے۔ محبت رسول ﷺ کا مطلب۔  رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سچی محبت کرنے والے، نبی کی اداوٴں پر مر مت والے،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنتوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بات اور فرمانبرداری میں دل و جان نچھاور کرنے والا،  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم قول و عمل کے خلاف سنت کرنے والے اور پوری زندگی گزارنے والے۔ آپ اپنی امت سے فکر کرتے تھے تو شاید کوئی ماں بھی اپنی اولاد سے محبت نہیں کرتی ہو گی ہر لمحے امت کی فکر اللہ اکبر۔ یہ کیا رب کا ہم پر کوئی خاص کرم نہیں جو اس نے اپنے محبوب ﷺ کو عطا فرمایا۔   ہم نے معاذ اللہ محبت اور عمل کو ترک کر کے مزید بشر کا انتخاب کیا۔   ہم فرقوں کو منتخب   کرنے کے لیے اپنی محبت کے طریقے سیکھنے شروع کر سکتے ہیں۔ ہم کون کب ہیں جو ہمارے بڑے شان والے ہیں جن کے لیے خود پروردیگار فرما رہے ہیں قرآن کریم۔ وَمَاۤ أَرۡسَلۡنَـٰكَ إِلَّا رَحۡمَةࣰ لِّلۡعَـٰلَمِینَ  ہم نے آپ کو تمام جہانوں کے لیے رحمت بنا دیا۔ رحمت کا حساب ہے کہ   ہم

کیا ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے۔

تصویر
دنیا میں 57 ممالک مسلم ریاست ہونے کے دعوے دار ہیں آپ کو باجود ہونے کی وجہ سے اب تک مغرب کے ممالک کی ترقی میں برابر نہیں آ سکتے ؟؟؟ کیا ہمارے پاس وسائل کی کمی ہے ؟؟ کونسی ایسی معدنیات ہیں جو اس رب کریم نے ہمیں نہیں دی آج پوری دنیا میں نظر دوڑائی جائے تو پیٹرول گیس سونا چاندی پیتل اور بہت سی معدنیات کے خزانے اس میں پیرو تلے موجود ہیں۔ برما کے علاوہ چین کے ساتھ بھی  بعض ممالک میں بندہٴ مومن کے اوقات بہت تلخ چل رہے ہیں جیسے مسلم کو جینے کا حق ہی نہیں۔ اس پر جان ومال، عزت وآبرو اور وامان کو درپیش آپس میں سمجھوتہ کرنے سے تو ہمارے پیارے وطن سے ہو سکتا ہے کہ کسی ملک میں موجود صورت حال ہو۔ وقت کی چیری نے جیسے قسم کھائی ہو ہم پیسنے کے ان حالات میں تشہیر واضطراب کی لہر تو ہر کلمہ گو میں دوڑا یقینی اور بے چینی کی کیفیت سے گزر رہے ہیں۔ آپ کو مستقبل کے حصول سے ضرب لگانے کے طریقے سے آپ کے درمیان کمزوری ضرب لگانا: ایک وہ خوف، غلطی اور اس کا درجہ شکار ہے کہ وہ تدبیر سوچنے کی صلاحیت بھی حاصل کرتا ہے۔ اور اسدیشہ ہے کہ وہ کسی افراط و تفریط کا شکار نہ ہونے سے۔ دوسری طرف وہ ہے جو امید کا دامن ہاتھ سے چھوڑنا

میرا وطن پاکستان

تصویر
 دس ستمبر 1945 ء کو ایک تقریب کے موقع پر قائد اعظم نے فرمایا :- " ہمارا نظریہ قرآنِ کریم میں موجود ہے۔ تمام مسلمانوں پر لازم ہے کہ قرآن غور سے پڑھیں۔ قرآنی نظریہ کے ہوتے ہوئے مسلم لیگ مسلمانوں کے سامنے کوئی دوسرا پروگرام پیش نہیں کر سکتی" اور ہم با حیثیت مسلمان دوسرے کیسی نظریےکو پسند بھی نہیں کر سکتے ۔۔ 1947 ء کو انتقالِ اقتدار کے موقع پر جب حکومت برطانیہ کی نمائندگی کرتے ہوئے لارڈ ماونٹ بیٹن نے اپنی تقریر میں کہا کہ : " میں امید کرتا ہوں کہ پاکستان میں اقلیتوں کے ساتھ ویسا ہی سلوک ہوگا اور ویسے ہی اصول پیش نظر رکھے جائیں گے جن کی مثالیں اکبر اعظم کے دور میں ملتی ہیں " تو اس پر قائد اعظم نے برجستہ فرمایا : " وہ رواداری اور خیر سگالی جو شہنشاہ اکبر نے غیر مسلموں کے حق میں برتی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ تو مسلمانوں کی تیرہ صدی قبل کی روایت ہے۔ جب پیغمبر اسلام حضرت محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم یہودیوں اور عیسائیوں پر فتح حاصل کرنے کے بعد ان کے ساتھ نہ ّ صرف انصاف بلکہ فیاضی کا برتاو کرتے تھے۔ مسلمانوں کی ساری تاریخ اس قسم کے واقعات سے بھری پڑی ہے۔ ہم پاکستانی حضرت

زندگی اور امیدیں

تصویر
 زندگی اور امیدیں زندگی یوں تو اس پروردیگار نے ہر انسان کو دی ہے کے وہ ہر انسان کی آزمائش کر سکے عبادت کے لیے فرشتے کم نہیں ہیں لیکن رب کریم نے اپنی حکمت سے انسانی وجود کی تخلیق کی تاکے وہ دیکھ سکے کون الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ پر چل کر آتا ہے ۔ اور کون دنیا کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتا ہے ۔۔ ابھی کچھ اس قسم کا بھی رجحان ہوگیا ہے کے ہم شارٹ کٹ مار کے جنت میں چلے جاہیں نماز کی پابندی ہم نہیں کریں پڑوسی کا خیال ہم نہیں کریں زکوة سے ہم نے پیچھا چھڑا لیا ہے یعنی ہم کچھ نا کریں اور جنت میں جانے کے وسیلے تلاش کر کے جنت حاصل کر لیں مگر ایسا ممکن نہیں ہے ۔ اور نا ہی کوئی کیسی کا کامیابی کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ کیسی کا کیسی نبی یا رسول یا ولی اللہ سے خون کا رشتہ جاکر ملتا ہے تو وہ بھی ہمیں جہنم سے  بچا نہیں سکتے۔ تو ہمیں سب سے پہلے اس خوش فہمی سے باہر آنا ہوگا ۔۔ دنیا کے ہر بیرونی سفر کے لیے جب ہم کو ہمارے نام کا ہی ٹکٹ لے کر بیرونے ملک سفر ممکن ہوتا ہے۔ تو پھر ہم یہ لاپروائی کیوں کرتے ہیں کیوں کیسی نبی یا رسول یا ولی کے نام پر موت کے بعد کا سفر طے کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ کیا ہمیں اب بھی قرآن کری

بیٹی رحمت ہے۔۔

تصویر
 بیٹی کو ایک بوجھ کی طرح سمجھنا آخر کیوں بیٹیوں کے بارے میں دو باتیں ہر کسی کی زبان پر ہوتی ہیں ۔بیٹیاں بوجھ ہوتی ہیں ،جتنی جلدی اتر جائے اچھا ہے۔ بیٹیاں پرایادھن ہوتی ہیں۔ آخر کیوں ایسا سمجھا جاتا ہے کیا ہم مکمل دین اسلام میں داخل نہیں ہیں کیوں ان کے لیے ایسی منفی سوچ رکھتے ہیں ۔ جب کے ہم بھی کیسی بیٹی کی اولاد ہی ہیں۔ زمانہ جہالت میں بیٹی کو زندہ درگور کر دیا جاتا  تھا قبائلِ عرب میں عورت کےحقوق واحترام کا تصور بھی بے عزتی سمجھا جاتا تھا انسانی تاریخ نےوہ ہولناک منظر بھی پیش کیا جب ایک باپ مفلسی اورکبھی شرمندگی کےخوف سےنومولودبیٹیوں کوزندہ درگورکر دیتےتھےاوراس عظیم گناہ پر عمل کرنے سےسکون اوراطمینان محسوس کرتے۔خاص طورپرقبیلہ مضر،خزاعہ اور بنوتیم کےقبائل میں یہ رواج عام تھا۔کتنے بے حس اور پتھر دل انسان ہونگے جو اس حد تک چلے جاتے تھے لاکھوں کروڑوں درود و سلام سرکارِدوعالم حضرت محمدﷺ جملہ کائنات کے لیے رحمۃ للعالمین ﷺ نے اس عمل کو جڑ سے اکھاڑہ پھینکا اور  قرآن کریم میں ان دل سوز واقعات کی منظر کشی یوں کی گئی ہے: اور جب ان میں سے کسی کو بیٹی (پیدا ہونے) کی خوشخبری ملتی ہے تو اس کا چہرہ

امیری غریبی

تصویر
میر غریب ہونا نا تو عزت کا باعث ہے نا ہی ذلت کا ۔ غربت کی سب سے بڑی وجہ  روزگاری ہے اسلام آباد: مالی سال 21-2020 کے دوران ملک میں بے روزگار افراد کی تعداد 66 لاکھ 50 ہزار تک پہنچنے کا تخمینہ لگایا گیا ہے جبکہ مالی سال 20-2019 کے دوران اس کی تعداد 58 لاکھ تھی۔ اس کی زمے داری نا تو آپنے والی حکومت قبول کرتی ہے نا ہی جانے والی ۔۔ ہمارے ملک پاکستان میں امیر اور امیر ہوتا جا رہا ہے اور غریب اور غربت میں ڈوبتا جا رہا ہے۔ کوئی پرسان حال نہیں ہے نا جانے کیسے کیسے کر کے ماں باپ بچوں کی تعلیم مکمل کرواتے ہیں ان کے بہتر مستقبل کے لیے۔۔ اس پر تعلیم کا حال ایسا ہے نا تو ٹیچرز اس قابل ہیں جو بہتر تعلیم دے سکیں غریب انسان  گورنمنٹ اسکول میں ہی اپنے بچوں کو تعلیم دلوا سکتا ہے وہ بھی مشکل سے۔۔  اس پر ستم یہ ہے 90 فیصد گورنمنٹ اسکول میں سیاسی بھرتی ہوتی ہے کچھ گھر بیٹھ کر تنخواہ لیتے ہیں تو کچھ سیاسی سرگرمیوں میں مصروف عمل ہوتے ہیں ۔۔ باقی جو بچتے ہیں وہ کیسے تمام مضامین پڑھا سکتے ہیں۔۔ صاحب حیثیت حضرت پرائیویٹ اسکول افورٹ کر لیتے ہیں اور کچھ تو بیرونے ملک تعلیم کے لیے بھیج دیتےہیں۔۔ کیا غریب کا کوئی مس