زندگی اور امیدیں


 زندگی اور امیدیں


زندگی یوں تو اس پروردیگار نے ہر انسان کو دی ہے کے وہ ہر انسان کی آزمائش کر سکے عبادت کے لیے فرشتے کم نہیں ہیں لیکن رب کریم نے اپنی حکمت سے انسانی وجود کی تخلیق کی تاکے وہ دیکھ سکے کون الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَۙ پر چل کر آتا ہے ۔ اور کون دنیا کو ہی اپنا سب کچھ سمجھتا ہے ۔۔

ابھی کچھ اس قسم کا بھی رجحان ہوگیا ہے کے ہم شارٹ کٹ مار کے جنت میں چلے جاہیں نماز کی پابندی ہم نہیں کریں پڑوسی کا خیال ہم نہیں کریں زکوة سے ہم نے پیچھا چھڑا لیا ہے یعنی ہم کچھ نا کریں اور جنت میں جانے کے وسیلے تلاش کر کے جنت حاصل کر لیں مگر ایسا ممکن نہیں ہے ۔

اور نا ہی کوئی کیسی کا کامیابی کا ذریعہ بن سکتا ہے ۔ کیسی کا کیسی نبی یا رسول یا ولی اللہ سے خون کا رشتہ جاکر ملتا ہے تو وہ بھی ہمیں جہنم سے  بچا نہیں سکتے۔ تو ہمیں سب سے پہلے اس خوش فہمی سے باہر آنا ہوگا ۔۔ دنیا کے ہر بیرونی سفر کے لیے جب ہم کو ہمارے نام کا ہی ٹکٹ لے کر بیرونے ملک سفر ممکن ہوتا ہے۔ تو پھر ہم یہ لاپروائی کیوں کرتے ہیں کیوں کیسی نبی یا رسول یا ولی کے نام پر موت کے بعد کا سفر طے کرنے کو تیار ہو جاتے ہیں۔ کیا ہمیں اب بھی قرآن کریم کے فرمانا عالی شان کو سمجھنے کے لیے تعلیم کی ضرورت ہے۔ قرآن مجید میں کئی جگہ پر الگ الگ نبی کے اور  ان کے خون کے رشتوں کا بیان موجود ہے فرعون جیسے ظالم جابر کی بیوی آسیہ، حضرت موسی علیہ السلام کا فرعون کے گھر پرورش پانا، حضرت نوح علیہ السلام کے بیٹے کا کفر پہ مرنا، حضرت لوط علیہ السلام کی بیوی کا نافرمان ہی رہنا، حضرت ابراہیم علیہ السلام کے والد کا اسلام کی دولت سے محروم رہنا یہ سب اس بات کی واضح مثالیں ہیں۔


بچپن تو ہمارا بولنے ،چلنے  میں گزر جاتا ہے۔ جوانی کی خوب قدر کرنی چاہیے اور اپنی تمام تر صلاحیتوں کو اچھے اور نیک کاموں میں صرف کرنا چاہیے ورنہ اس دور میں کی جانے والی بے  فکری ،لاپرواہی بڑھاپے میں پچھتاوے کا سبب بن جاتی ہے کیوں کہ گیا وقت کبھی ہاتھ نہیں آتا۔جو نوجوان وقت کی قدر کرنا جانتے ہیں وہ صحراوٴں کو گلشن بنا دیتے ہیں ۔جب اللہ ربالعزت نے ہمیں صحراؤں کو گلشن بنانے کی ہمت اور طاقت دی ہے تو پھر ہم کیوں اپنی زندگی کو کانٹوں کی سیج بنا کر پھرتے ہیں اتنے مصروف رہتے ہیں اپنی موت کے بعد کی زندگی کو بھول جاتے ہیں قبر میں کیسی اور نے آ کے سوالات کے جواب نہیں دینے ہم کو دینے پڑھیں گے۔۔ اپنے ہر برے عمل کا حساب ہم کو خود دینا ہو گا۔ تو ہم کو اتنی ہی امیدیں کرنی چاہیں جو ہم با آسانی رزق حلال سے پوری کر سکیں اور اس سے بھی زیادہ فکر زندگی کو اس راستے پر لے کر چلنا چاہیے جو ہماری دنیا اور آخرت کی کامیابی کا سبب بنے۔۔ اللہ ربالعزت کو بھی جوانی کی عبادت بہت پسند ہے تو جوانی کی قدر کرو یہ ہی وہ وقت ہے جو آپ کے کردار کا آگے جا کے فیصلہ کرئے گا۔۔

اس رب کریم نے ہم کو ہر نعمت سے نواز ہے کیا یہ کم ہے ؟؟

ان سب سے بڑھکر اس پروردیگار نے ہم کو امت محمدیہﷺ میں پیدا کیا تو ہم کیوں غافل ہیں ہر گزرتے پل کا شکرادا کرتے رہو۔


زندگی کا پل کا بھروسہ نہیں اور ہماری امیدیں آسمان کو چھونے کی ہیں۔


گناہ کو پھیلانے کا ذریعہ بھی کبھی مت بنو ۔۔کیونکہ ہوسکتا ہے آپ تو توبہ کرلو پر جس کو آپ نے گناہ پر لگایا ہے وہ آپ کی

آخرت کی تباہی کا سبب نا بن  جائے۔۔ 

عمل ایسے ہوں کے ہم اللہ کو پسند آ جاہیں ۔ 

علامہ اقبال کا شعر کیا خوب ہے ۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے 

خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے۔۔

اللہ ربالعزت ہم سب کو صراط المستقيم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔ آپ سب کی دعاوںکا طلبگار ۔۔🙏

محمد علی شیخ   @MSA_47

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

میرا وطن پاکستان

مشرق سے مغرب

بیٹی رحمت ہے۔۔