لوگوں کا کام ہے کہنا

 ہم لوگ اپنی زندگی کے اچھے برے معملات زندگی شروع کرنے سے پہلے ہی ان کو لوگوں کی سوچ کے سپرد کر دیتے ہیں ۔۔




لوگ کیا کہیں گے۔۔؟؟





بیٹی اگر کچھ زیادہ پڑھنا چاہیے تو یہ ہی سوال بیٹا اگر جلدی شادی نا کرنا چاہے تو وہ یہ سوال ۔۔ کیسا لباس پہن  کر باہر جانا ہے کس لباس میں کوئی پارٹی اٹینڈ کرنی ہے ۔۔


کس بریڈ کے شوز لینے ہیں ۔۔


عید کی شاپنگ کیسے کرنی ہے ۔۔


اور کہاں سے کرنی ہے۔۔


فلاں گھروالوں نے پیچھلے سال کیا کہا تھا ۔۔۔






ان ساری باتوں کے باوجود پھر بھی ساری بشریت ایک دوسرے کو سوچنے کی دعوت دیتی ہے بیٹی تھوڑی سی صحت مند ہوجائے تو کہنے لگتے ہیں بیٹا موٹی۔ہورہی ہو اپنی صحت کا خیال کرو۔  بھائی کچھ تو سوچیں، یہ کیا حال بنا رکھا ہے۔ اتنا جلدی بڑھاپا ؟؟ اتنی شوگر؟ کچھ تو سوچیں۔ لگتا ہے سوچے بغیر کام نہیں چلے گا۔ اور اس ڈائیلاگ سے کبھی جان نہیں چھوٹے گی۔اور دوسری طرف سوچنا تو پڑے گا کیونکہ کہ سوچنے کا حکم تو خالق نے بھی دیا ہے۔ افلا تعقلون؟ افلا تتدبرون؟ کیوں نہیں سوچتے، کیوں فکر نہیں کرتے؟


دین اسلام نے سوچنے اور فکر کرنے کو عبادت کہا ہے بلکہ سوچنے اور فکر کرنے کی اہمیت 




اتنی زیادہ ہے کہ خود رب کریم نے فرمایا ہے عقلمندوں کے


 لیے نشانیاں ہیں ۔۔۔۔


مگر افسوس کے ساتھ کہنا پڑھ رہا ہے وہ نشانیاں وہ سوچ لوگوں کے لیے نہیں ہیں حکم خداندی ہے ۔۔


اور رسول محمــﷺــد اطاعت کرو۔۔


اور قدرت کے نظام کو کیسے رب کریم نے تخلیق کی مگر 


ہماری زندگی کا مرکز اس سوچ پر ٹھیر گیا ہے لوگ کیا سوچیں گے۔۔


ہم اپنی اللہ کی دی ہوئی حسین نعمت اس زندگی کو دوسرے کے سوچ کے مطابق گزار کر دنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں ۔۔




بنیادی طور پر یہ ایک نفسیاتی مسئلہ ہے جس کے ذریعے ہمارادماغ خود کو ددوسروں کی نظر سے دیکھنے لگتا ہے ۔یہ ایک اچھا عمل بھی ہے۔ کہ ہم معاشرے میں دوسروں سے مماثلت پیدا کرنا چاہتے ہیں۔ تا کہ ہم بھی اس معاشرے میں ایڈجسٹ ہوجائیں اور ایسا کام نہ کریں جو معاشرے میں کسی گڑبڑ کا باعث ہو ۔۔۔مگر بعض اوقات ” لوگ کیا کہیں گے ” والی نفسیات ہم پر اس قدر حاوی ہوجاتی ہے کہ ہم مکمل طور پر آپنی شخصیت بھلا کے خود کو دوسروں کی نظرسے دیکھنا شروع کردیتے ہیں ۔۔




ایڈیسن نے بجلی ایجاد کی۔۔




ہوائی جہاز کا تجربہ سب سے پہلے مسلمان سائنسدان ابوالقاسم ابن فرناس اندلسی نے کیا تھا۔ موجودہ ہوائی جہاز کی ایجاد کا سہرا امریکہ کے اوورل رائٹ اور ولبر رائٹ کے سر ہے۔ دونوں بھائی تھے انہیں رائٹ برادران کہا جاتا۔۔


بندوق کے نام سے ہم جس کو جانتے ہیں وہ پہلے بانس کے ٹکڑے سے بنایا جاتا تھا اور اس کی مدد سے ایک نیزہ نما تیر فائر کیا جاتا تھا۔ بانس کے خول میں گن پاﺅڈر (بارود) بھرا جاتا تھا جس کے پھٹنے سے تیر انتہائی طاقت کے ساتھ بانس کے خول سے نکلتا اور لمبے فاصلے تک ہدف کو نشانہ بناسکتا تھا۔ بارود کی ایجاد بھی اس سے پہلے نویں صدی عیسوی میں چینیوں نے ہی کی تھی۔۔ 


ان مختصر ایجادات کا ذکر اس لیے کیا ہے کے ان لوگوں نے یہ نہیں سوچا کے ۔۔۔


لوگ کیا سوچیں گے۔۔؟؟




اس بات کے پیش منظر کو سمجھنے کے لئے اس کے پس منظر میں جانا ہوگا۔ابتدا افرنیش سے لے کر آج تک انسان نے ارتقاء کی جو منازل طے کی ہیں اس نے انسان کی سوچوں کو وسعت دینے کی بجائے ایک محدود دائرے میں قید کردیاجس کے باعث وہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوگیا کہ لوگ کیا سوچیں گے ۔اور یوں اس کی ساری زندگی صرف ایک دائرے کے گرد گھومنے لگی ۔۔ 



ہمیں اس سوچ سے نکل کر اپنے لیے اپنے ملک کے لیے اور مخلوق کائنات کے لیے ہم جتنا بھی بہتر سے بہتر کر سکتے ہیں وہ کرنا چاہیے ۔۔


تا کے ہماری آنے والی نسلیں بھی اس پر ہی عمل کریں ۔۔


خود کو بکھرتا دیکھ کر کچھ کر نہیں پاتے ہیں 


پھر بھی جانے کیوں لوگ بڑی بڑی باتیں کرتے ہیں ۔


زندگی بھر یہ سوچتے رہے لوگ کیا کہیں گے آخر میں لوگ کہتے ہیں ۔۔۔

’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘

@MSA_47   محمد علی شیخ

تبصرے

اس بلاگ سے مقبول پوسٹس

میرا وطن پاکستان

مشرق سے مغرب

بیٹی رحمت ہے۔۔